انبیائے کرام علیہم السلام کا کلام فصاحت و بلاغت کامرقع ہوتا ہے جس سے حکمت و دانائی اور معرفت الہی کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اسی طرح حضرات انبیاء کرام علیہم السلام جس قوم میں تشریف لاتے ہیں اُن پر اسی قوم کی زبان میں وحی نازل ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لبین لھم‘‘ ترجمہ: ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وحی اُن کے لیے خوب واضح ہوسکے۔ مرزا قادیانی بھی یہی بات لکھتا ہے کہ:۔یہ بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی اور ہواور الہام کسی اور زبان میں ہو۔ (خزائن ج ۲۳ ص۲۱۸) لیکن اس کے برعکس مرزا قادیانی کو کئی زبانوں میں وحی ہوتی تھی اور پھر اس انگلستانی نبی کے الہامات و کشوف ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر کبھی متلی آنے لگتی ہے اور کبھی اس کی فاتر العقلی و بے ہودگی پر ہنسی ! یوں تو مرزا قادیانی کے الہامات کو بیان کرنے کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔ بطور نمونہ چند مختلف زبانوں کے الہامات پیش خدمت ہیں
عربی:
فحان ان تعان و تعرف بین الناس (تذکرہ ص ۵۴۸ طبع چہارم)
عبرانی:
ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی اوس (البشری جلد اول ص ۲۶)
پنجابی:
الہام ہوا۔ پٹی پُٹیگئی (تذکرہ ص ۶۸۱ طبع چہارم) واﷲ واﷲ! سیدھا ہویا اولَّا (تذکرہ ص 631 طبع چہارم)
فارسی:
الہام ہوا سلامت بر تو اے مرد سلامت (تذکرہ ص ۶۳۸ طبع چہارم)
ہندی:
الہام ہوا ہے کرشن جی رودزگوپال (اخبار البدر۲۹اکتوبر ۱۹۰۳)
انگریزی:
الہام ہوا I Love you, I am with you (تذکرہ ص ۹۲ طبع چہارم)
عربی، انگلش اردو ملا جلا الہام:۔
فتا برک من علم وتعلم خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا۔(خزائن ج ۲۲ ص ۹۹)
بے معنی الہامات:
اس کے علاوہ مرزا قادیانی کو بے معنی الہامات بھی ہوئے جن کی سمجھ مرزا قادیانی کو بھی نہ ہو سکی چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔
الہام میں شیشی دکھائی گئی اس پرلکھا تھا ’’ خاکسار پیپر منٹ‘‘ (الحکم قادیان ۲۴ فروری ۱۹۰۵)
الہام ہوا ھو شعنا نعسا (تذکرہ ص91 طبع چہارم)
پریشن عمر پرا طوس پلا طوس (تذکرہ ص 91 طبع چہارم)
غثم غُثم غُثم (تذکرہ ص طبع چہارم)
ایک دانہ کس کس نے کھانا (البشری ج 2ص 107)
خواب میں دکھائے گئے (ا)تین استرے (۲) عطر کی شیشی (تذکرہ ص 774طبع سوم)
پیٹ پھٹ گیا (دن کے وقت کا الہام ہے) (تذکرہ ص 568 طبع چہارم)
ہیضہ کی آمدن ہونے والی ہے (تذکرہ ص ۶۱۴ طبع چہارم)
ایلی اوس (تذکرہ ص ۷۱ طبع چہارم)
الہام ہوا ’’خطرناک‘‘ (تذکرہ ص ۷۶۲ طبع چہارم)